GENOCIDE ALERT FOR KASHMIR

اگست ۰۲۰۲،

ڈاکٹر گریگوری ایچ سٹینٹن، جینو سائیڈ واچ

جینوسائیڈ واچ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے حوالہ سے ایک جینوسائیڈ الرٹ جاری کر رہی ہے۔

۵ اگست ۹۱۰۲ کو بھارت کے صدر نے اپنے ملک کے آئین کے آرٹیکل ۰۷۳ اور ۵۳ اے کے تحت ریاست کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر دیا۔ بھارت نے اس وقت کشمیر میں چھ لاکھ فوج متعین کر رکھی ہے۔عوام کی نقل و حرکت اور میڈیا پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ انٹر نیٹ سروس کو بھی معطل کر دیا گیا ہے۔

۷۴۹۱ میں جب پاکستان اور بھات کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت کشمیر کو ایک پرنسلی ریاست کا درجہ حاصل تھا۔ اس کے ایک حصہ وادی میں مسلمانوں جبکہ دوسرے حصہ جموں میں ہندوؤں کی اکثریت تھی۔ تقسیم کے موقع پر یہاں کے ہندو مہاراجہ نے خود مختار ملک کی حیثیت سے رہنا چاہا لیکن جب پاکستان کی طرف سے مسلح افراد نے اس کی ریاست پر ہلہ بول دیا تو اس نے بھارت کے ساتھ الحاق کر لیا، جس کے بعد اس نے فوری طور پر اپنی فوجیں یہاں پر اتار دہیں۔

اس کے بعد پاکستان سے دخل کرنے والے مسلح افراد اور بھارتی افواج کے درمیان جنگ کا آغا ز ہو گیا۔بھارت اس موقع پر کشمیر کے مسئلہ کو سلامتی کونسل میں لے گیا۔اس نے ۸۴۹۱ میں قرارداد ۷۴ پاس کر کے پاکستان پر زور دیا کہ وہ کشمیر سے اپنی افواج نکال لے جبکہ بھارت سے کہا گیا کہ وہ اپنی افواج میں کمی کرے۔قراداد میں مذید کہا گیا کہ کشمیریوں کو استصواب رائے کے ذریعہ اپنے مستقبل کے فیصلہ کا حق ہو گا۔ اس فیصلہ پر آج تک عمل درآمد نہیں کروایا جا سکا ہے۔پاکستان اور بھارت دونوں کشمیر پر حق کے دعویدارہیں۔ اس وقت اس کا ایک حصہ بھارت کے جبکہ دوسرا پاکستا ن کے ما تحت ہے اور ان دونوں کو ایک لکیر تقسیم کر دیتی ہے جسے لائن آف کنٹرول کہتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان اس تنازعہ پر تین جنگیں ہو چکی ہیں جب کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں سے بھی لیس ہیں۔

۴۸۹۱ میں کشمیر کے مسلم نوجوانوں نے حق خودارادیت کے حصول کے لیے ریاست میں مظاہرے شروع کر دیے جنھیں بھارت نے طاقت کے زور پر کچل دیا۔۶۸۹۱ میں فسادات کے دوران کشمیر میں ہندوؤں کی جائیداد کو تباہ کر دیا گیا۔ اسی طرح مسلمان جنگجوؤں نے ۹۸۹۱ اور ۰۹۹۱ میں بھی ہندوؤں کو ہدف بنایا جس کی وجہ سے ایک لاکھ پنڈتوں کو کشمیر سے نکل جانا پڑا۔ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ۹۸۹۱ سے ۶۰۰۲ کے دوران کشمیر میں پچاس ہزار افراد قتل کر دیے گئے۔اس کے علاوہ ریاست کشمیر کے انسانی حقوق کمیشن کے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں ہیں کہ ۰۴ اجتماعی قبروں میں ۰۳۷۲ افراد کو دفن کر دیا گیا۔ کمیشن نے آٹھ ہزار سے زائد افراد کی گمشدگی کا بھی تزکرہ کیا ہے۔

دوسری طرف جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی کے مطابق ۶۱۰۲ تک ریاست میں بھارتی افواج کے ہاتھوں ستر ہزار سے زائد افراد مارے گئے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں عام افراد کی گمشدگی، ان پر تشدد اورآبرو ریزی کے واقعات عام ہیں۔ پروفیسر باربرا ہیف نے قتل عام کے حوالہ سے جن عوامل کو بنیاد بنایا ہے انھیں سامنے رکھتے ہوئے،ذیل میں کشمیر میں ایسی ممکنہ صورت حال کے بارے میں متنبہ کیا جاتا ہے

  1. کشمیر میں تاریخی اعتبار سے اس سے قبل میں قتل عام کے واقعات رونما ہو چکے ہیں،ایسے واقعات میں ملوث افراد کو خلاف کسی قسم کی تادیبی کاروائی عمل میں نہیں لائی جا رہی۔
  2.  ۔کشمیر کے سرحدی علاقوں پر پاکستان اور بھارت کی افواج کے درمیان تصادم کا سلسلہ جاری ہے۔
  3. بھارت کی حکمران جماعت کی ہندتوا سوچ کی مالک ہے جس کے مطابق یہ ملک ہندو قوم کے لے ہے۔
  4. بھارتی حکومت نے ملک میں فوج کو کسی قانونی قدغن کے بغیر لامحدود اختیارات دے رکھے ہیں
  5. مسلمانوں کی اکثریتی آبادی پر ہندوؤں اور سکھوں پرمشتمل فوج کو مطلق اختیارات دے دیے گے ہیں۔
  6. باہر کی دنیا سے رابط کے ذرائع مثلاً انٹر نیٹ، میڈیا اور تجارت کو بند کر دیا کیا ہے۔
  7. انسانی حقوق کی وسیع بنیادوں پر خلاف ورزی کی جا رہی ہے، جس میں تشدد، آبروریزی، بغیر کسی الزام کے دوسال تک گرفتاری اور مسلمانوں کے سیاسی رہنماؤں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی حراست اور دوسرے علاقوں میں منتقلی چامل ہیں

جینو سائیڈ واچ نے اس کے ساتھ ساتھ قتل عام کے دس معروف مرحلوں کا بھی پیشگی ذکر کر دیا ہے:
۱۔ تقسیم، ہندو اور سکھ فوج کے لیے ہم اور مسلمانوں کے لیے وہ کی اصطلاح
۲۔علامتی اظہار، مسلمانوں کا اپنے شناختی کارڈ پرمسلم نام کا اندراج کروانا، اپنی الگ کشمیری زبان، لباس اور عبادت کے لیے مسجد رکھنا
۳۔۰۹۹۱تک کشمیر میں ہندو پنڈت معاشی اعتبار سے ذیادہ خوش حال تھے، بی جے پی کا ان سے اس مقام کے دوبارہ حصول کا وعدہ کرنا
۴۔بدنام کرنا، مسلمانوں کو دہشت گرد، علےٰحدگی پسند،مجرم اور تخریب کار کا نام دے دینا
5. Organization: 600,000 heavily armed Indian Army troops and police dominate Kashmir;
۶۔ اندرونی تقسیم، مودی اور بی جے پی کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف منافرت کا پرچار اور سوشل میڈیا کا ان کے خلاف جھوٹا اوربے بنیاد پروپیگنڈاکرنا
۷۔تیاریاں، بھارتی فوج کا کشمیر پر قبضہ اور بی جے پی حکومت کا اس ریاست کے مسئلہ کو ہمیشہ ہمیشہ ختم کر دینے کی دھمکیاں دینا
۸۔ظلم و تشدد، کشمیری مسلمانوں کا لاک ڈاؤن کیا جانا،اس کے ساتھ ساتھ انھیں تشدد، آبروریزی، حراست اور قتل کا نشانہ بنانا
۹۔صفایا کر دینا، تقسیم ہند کے موقع پرقتل عام ہوا جب کہ ۰۹۹۱ سے لے کر اب تک ایسے ۵۲ واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں مسلمانوں اور فوج کے درمیان جان سے مار دینے کے واقعات کا تناسب ۵۲ اور ۰۱ رہا۔مسلمان جنگجوؤں کے ہاتھوں ہندوؤں کا یہ تناسب ۵۱ دیکھنے میں آیا
۰۱۔صاف انکار، مودی اور بی جے پی کا دعوٰی ہے کہ ان کا مقصد کشمیر میں خوشحالی کا قیام اور دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ وہ کسی بھی قسم کے قتل عام سے انکار کرتے ہیں، جبکہ آج تک کسی بھی فوجی کے خلاف کشمیریوں کو تشدد، آبروریزی اور قتل کا نشانہ بنانے پر کوئی کاروائی نہیں کی گئی ہے۔بھارت میں مودی کے اقتدار میں آنے پر بڑے جوش و خروش کا پایا جانا

اس تناظر میں جینو سائیڈ انٹر نیشل اقوام متحدہ اور اس کے رکن ممالک پرزور دیتی ہے کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ کشمیر میں قتل عام سے باز رہے۔