HISTORY OF KASHMIR CONFLICT

یوسف شاہ چک کشمیر کے آخری مقامی خود مختار حکمران تھے۔اپنوں کی غداری اور بے وفائی کی وجہ سے وہ دشمن کی قید میں چلے گئے اور زندگی کے آخری ایام انھیں بھارت کی ریاست بہار کی ایک جیل میں گزانا پڑے۔دراصل ان کی اس داستان سے مسئلہ کشمیر کو سمجھنے میں ایک بڑی مدد مل جاتی ہے۔اس واقعہ کی وجہ سے اہل کشمیر آج بھی اپنے اندر ایک بے پایاں روحانی کشاکش کے ساتھ ساتھ غصہ اور بے قراری محسوس کرتے ہیں۔یوسف شاہ کی حسرت و یاس پر مبنی اس داستان کے اندردرحقیقت کشمیریوں کے دکھ و الم سمٹ جاتے ہیں۔

یہ واقعی کشمیر کی مکمل داستان ہے، ایک طرف انتہائی خوبصورت اور قابل رشک تو دوسری طرف اتنی ہی قابل افسوس اور شرمناک۔ایک طرف تعریف اور ستائش کے لائق تو دوسری طرف پامال شدہ اورمجروع۔ایک ایسی خوبصورتی جسے مسخ کر دیا گیا ہو۔ کشمیریوں کے لیے وقت گزا نہیں، بلکہ وہ ایک جگہ تھم سا گیا ہے، کیونکہ ان کے ماضی اورحال میں خط امتیاظ کھینچنا ممکن ہی نہیں رہا ہے۔ یہ ۶۲۵۱ کا واقعہ ہے، کشمیر کے حکمران یوسف شاہ کو مغل بادشاہ اکبر کی طرف سے ایک صلح نامہ موصول ہوا جسے اس نے منظور کر لیا۔اس سے قبل یہ طاقتور مغل حکمران کشمیر کو فتح کرنے کی دو مرتبہ ناکام کوشش کر چکا تھا، اور کشمیر یوں کے ہاتھوں اس کی فوج کو سخت ہزیمت اٹھانی پڑی تھی۔حالات کا بغور جائزہ لینے کے بعد باالآخر وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ براوہ راست جنگ سے کشمیریوں کو زیر کرنا ممکن نہیں ہے اس لیے بہتر یہ ہو گا اس کے لیے کوئی چال چلی جائے۔ چناچہ اس نے یوسف شاہ سے درخواست کی کہ وہ اس کے ساتھ بات چیت کے لیے دلی تشریف لائے۔شاہ نے یہ درخواست قبول کر لی اور جلد ہی دلی کی طرف روانہ ہو گیا۔ اکبر نے تمام سفارتی اور اخلاقی روایات کو پامال کرتے ہوئے یوسف شاہ کو اپنے دربار سے گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا جہاں سے اسے بھارت کی موجودہ ریاست بہار منتقل کر دیا۔یوں یوسف شاہ نے اپنی زندگی کے آخری ایام اپنے دیس کشمیر سے دور پردیسی میں بسر کیے۔وہ دن اور آج کا یہ دن۔۔۔یوسف شاہ کی داستان کشمیر کے ہرگھر،خاندا ن اور پورے معاشرہ میں ہر روز دہرائی جا رہی ہے۔۔۔وہی دکھ، وہی درد، وہی اعتبار اور اس کے جواب میں وہی دھوکہ دہی اور وعدہ خلافی۔۔۔!

ڈوگرا دور اور معائدہ امرتسر: AMRITSAR

کشمیر پر جو ظلم و ستم اور بربریت ڈوگرا حکمرانوں نے ڈھائی، اس کی کوئی مثال ملنا ناممکن ہے۔افغان اور مغل حکمران ان کے سامنے فرشتہ نظر آتے ہیں۔کشمیر پر ڈوگرا حکمرانی کا با قاعدہ آغاز مہاراجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں سے ہوتا ہے جس نے ۶۴۸۱ میں انگریزوں کے ساتھ معائدہ امرتسر کر کے کشمیر کو ایک لاکھ پچاس ہزار امریکی ڈالرز کے عوض خرید لیا۔ یہ سودہ دراصل ان خدمات کا ایک صلہ تھا جو مہاراجہ نے ملکہ برطانیہ کے لیے پیش کی تھیں۔یوں برطانیہ نے بغیر کسی قانونی اور اخلاقی جوازکے کشمیریوں کو ان کی مرضی اور منشاء کے بغیر بھیڑ بکریوں کی طرح ایک تیسرے شخص کے ہاتھ بیچ دیا۔ چناچہ اس سودہ کے بعد کشمیر برظانیہ کی باقاعدہ طور پر ایک پرنسلی ریاست بن گیا جس کا حکمران تاج برطانیہ کے ساتھ اپنی وفاداری کے اظہار کے طور پر ملکہ کو سالانہ خراج بھیجتا تھا۔مہاراجہ نے مسلمانوں پر ظلم وستم کے دہانے کھول دیے، ان پر سرکاری محکموں فوج، پولیس او ر تعلیم کے دروازے بند کر دے گئے۔دوسرے الفاظ میں اس نے کشمیر کے معاشرہ کو مذہب اور فرقہ کی بنیاد پر تقسیم کرنا چاہا جس کا سلسلہ آج کے بھارتی حکمران بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

کا قتل عام: ڈوگرا دور میں مسلمانوں پر اتنے شدید مظالم اور تکالیف ڈھائی گئی کہ وہ ان کے ذہنوں میں ہمیشہ کے لیے ایک تلخ یاد بن کر رہ گیا۔اس صورت حال سے نجات کے لیے انھوں نے ایک تحریک کا آغازکر دیا۔ جگہ جگہ مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کو دبانے کے لیے ڈوگرا حکمرانوں نے ہر ممکنہ حربہ استعمال کیا۔ اس دوران البتہ ایک ایسا واقعہ رونما ہوگیا جس نے کشمیر کی سیاست پر انمٹ نقوش ثبت کر دیے۔

ضیاء اوربھت نے ۹۱۰۲

میں چھپنے والی اپنی کتاب میں اس واقعہ کو ان الفاظ میں رقم کیا ہے۔ ڈوگرا حکمرانوں کے خلاف اولین اور سب سے بھرپو ہمہ گیر احتجاج کا سلسلہ ۱۳۹۱ میں دیکھنے میں آیا۔مظاہرین ان غیر منصفانہ قوانین کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے جن کے ذریعہ مسلمانوں کو ظلم و جبر کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ایک حریت رہنما عبدل قدیر پر مقدمہ کے خلاف عوامی احتجاج کا سلسلہ چل رہا تھاکہ ۳۱ جوئی ۱۳۹۱کو

دوران احتجاج نماز کا وقت ہو گیا۔ ایک شخص نے اٹھ کر نماز کے لیے آذان دینا شروع کی تو گورنر راج زادہ ٹری لو کی نے ڈوگرا پولیس کو ؑحکم دیا کہ وہ اس پر گولی چلا دے۔جب وہ شخص گولی لگنے سے شہید ہو گیا تو اس کی جگہ ایک دوسرے شخص نے بقیہ آذان کی تکمیل کر نا شروع کر دی۔ پولیس نے اسے بھی شہید کردیا۔ چناچہ جب تک آذان کی تکمیل ہوتی پولیس ۲۲ افراد کو دن دھاڑے شہید کر چکی تھی۔

مسلم کانفرنس کا قیام

کشمیر میں جاری ظلم ستم کا مقابلہ کرنے کے لیے یہاں کی سول سوسائٹی نے ۱۳۹۱ میں ایک سیاسی جماعت مسلم کانفرنس کے قیام کا فیصلہ کیا۔اس تنظیم کے روح رواں چودھری غلام عباس اور شیخ محمد عبداللہ تھے۔تنظیم نے ڈوگرا راج سے آزادی کے لیے اپنی تحریک شروع کر دی۔ اس دوران اس نے محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ کی انگریزوں سے آزادی کی تحریک کی بھی حمایت کا اعلان کر دیا۔ تاہم چودھری غلام عباس اور شیخ عبد اللہ جلد ہی ایک دوسرے سے الگ ہو گئے کیونکہ ان کی شخصیت، افتاد طبع اور سیاسی نظریات میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔

تقسیم برصغیر کا اعلان

: اگست ۷۴۹۱ میں برطانیہ کے برصغیر پر سے اقتدار کے خاتمہ کے بعد پاکستان اور بھارت دو آزاد اور خود مختار ممالک کے طور منصہ شہود پر آئے۔ پاکستان کے قیام کا باقاعدہ اعلان رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو کیا گیا۔یہ ایک بڑا منفرد اور غیر معمولی موقع تھا کہ کسی قومیت یا نسلی بنیادوں پر نہیں بلکہ ایک دینی نظریہ کی بنیاد پر ایک ملک وجود میں آ رہا تھا۔اس کا مقصد ایک ایسی ریاست کا قیام تھا جہاں پر مسلمان دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے تمام ریاستی ادارے اور نظام زندگی ترتیب دے سکیں۔

جموں میں مسلمانوں کا قتل عام

ریاست کی نگرانی میں ستمبر ۷۴۹۱ میں جموں میں دو سے تین لاکھ مسلمانوں کو تہہ تیغ کر دیا گیا جبکہ پانچ لاکھ کے لگ بھگ لوگوں نے جان بچا کر پاکستان کے مختلف شہروں جیسے سیالکوٹ، وزیر آباد، راوالپنڈی، لاہور اور گجرانوالہ میں پناہ لی۔اس سارے ہنگامہ کے پیچھے بھارت کا مقصد یہ تھا کہ جموں سے مسلمانوں کو نکال باہر کر کے ہندوؤں کو علاقہ کی اکثریتی آبادی کا مقام دے دیا جائے۔۔